حق صابر _ یا صابر
حضور مخدوم ال الامین مخدوم ال عارفینبادشاہ أ ڈو (2) جہاں ختم اللہ ال ارواح سلطان ال اولیہ حضرت سیدنا مخدوم الاعادن علی احمد صابر أ پک کلیاری را.
When the time of his birth approached very close, the revered mother saw in a dream one day the Caliph Ali sule who had come along, saying: “O daughter, soon you are going to give birth to an eminent son, the majestic and the exalted. Name him Ali after me.”
A day after she had a similar dream. The Prophet Exul, the eminence of the worlds, came along and passed on the happy news and said: “Name him Ahmad after me.”
After the Prophet’s ( seal) glad tidings, a venerable elderly gentleman came to see her father. He called on and met her.
He showed his affection to her and said: “The baby will be
known as ‘Ala-ud-Deen.”
Consequently, he was named ‘ALA-UD-DEEN ALI AHMAD.
Baba Fareed entrusted him with the duty of distribution of food (Langar). He accepted this duty happily and in between engaged himself in prayers. He dispensed with his duties well and also attended the discourse of Baba Freed Ganj-e-Shakar. Frequent and continuous fasting and eating leaves and wild food made him weak. When his mother came back again and saw him, she complained to his brother (Baba Fareed) about his weakness. Baba Fareed called upon him and asked the reason. Sabir Pak replied, “You ordered me to distribute the food and not to partake from it”. Baba Fareed embraced him happily and remarked, “He is sabir (Patient)”. From that day forth, He became famous with the name of “Sabir”.
جب ان کی ولادت کا وقت قریب آیا تو والدہ محترمہ نے ایک دن خواب میں خلیفہ علی سولی کو دیکھا جو ساتھ آیا ہوا تھا کہنے لگا: ’’اے بیٹی، عنقریب تم ایک نامور بیٹے کو جنم دینے والی ہو، جو عظیم الشان اور عظیم الشان ہے۔ میرے بعد اس کا نام علی رکھو۔”
ایک دن بعد اس نے ایسا ہی خواب دیکھا۔ تمام جہانوں کے بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور خوشخبری سنائی اور فرمایا: “میرے بعد اس کا نام احمد رکھو۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے بعد ایک بزرگ بزرگ ان کے والد سے ملنے آئے۔ اس نے فون کیا اور اس سے ملاقات کی۔
اس نے اسے اپنا پیار دکھایا اور کہا: “بچہ ہو گا۔
علاؤالدین کے نام سے جانا جاتا ہے۔
چنانچہ آپ کا نام علاء الدین علی احمد رکھا گیا۔
بابا فرید نے انہیں کھانا (لنگر) تقسیم کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس نے یہ فریضہ بخوشی قبول کیا اور درمیان میں نماز میں مشغول ہو گئے۔ انہوں نے اپنے فرائض بخوبی نبھائے اور بابا آزاد گنج شکر کے مشاعرے میں بھی شرکت کی۔ کثرت سے روزے رکھنے اور پتے کھانے اور جنگلی خوراک نے اسے کمزور کر دیا۔ جب اس کی ماں دوبارہ واپس آئی اور اسے دیکھا تو اس نے اپنے بھائی (بابا فرید) سے اس کی کمزوری کی شکایت کی۔ بابا فرید نے اسے بلایا اور وجہ پوچھی۔ صابر پاک نے جواب دیا کہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں کھانا تقسیم کروں اور اس میں سے حصہ نہ لوں۔ بابا فرید نے خوشی سے اسے گلے لگایا اور کہا، “وہ صابر (مریض) ہے”۔ اسی دن سے آپ صابر کے نام سے مشہور ہوئے۔